…ڈاکٹر ساجدخاکوانی…
امت مسلمہ سے خلافت عثمانیہ کے مصنوعی وسازشی خاتمے کے بعد سے ترکی مسلمانوں کی گردنوں پر سیکولرقیادت نے اپنے استبدادی پنجے گاڑے رکھے اور کم و بیش پون صدی تک وہاں کے جرنیلوں نے اپنی بندوقوں سے سیکولرازم کے تعیناتی حکمرانوں کو جمہوریت کے لبادے کاتحفظ فراہم کیے رکھا۔جب ایک طویل عرصے کے بعد سیکولرازم کے بدبودار نظریات سے مسلمان ترک قوم کی حِدبرداشت جواب دے گئی اور صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اب گزشتہ تین انتخابات سے مسلسل راسخ العقیدہ طیب ارزگان کی جسٹس پارٹی کوپورے ملک سے جتنابڑااعتمادحاصل ہواہے اسے سیکولرازم کی تابوت میں آخری کیل قرار دینا عبث نہ ہوگا۔ ’’بجھنے سے پہلے چراغ پوری قوت سے بھڑکتاہے‘‘ کے مصداق آج کل ترکی کے بچے کچے اور شکست خوردہ سیکولرافراداندرونی و بیرونی سازشی عناصر کی آشیرباد سے اپنے کفن سے منہ نکالے ہوئے ہیںاور اسلام پسند حکمرانوں کے خلاف اپنے ہی قائم کردہ جمہوری اصولوں کو سبوتاژکیے چلے جارہے ہیں۔ان سیکولرافراد کو بہت ساری شکایتوں میں سے ایک بڑی شکایت یہ بھی ہے کہ موجودہ راسخ العقیدہ مسلمان حکمرانوں نے ترکی کے سیکولر تشخص کو مجروح کیاہے جبکہ وہ پہلے اس بات کا تو جواب دیں کہ ترکی کے اسلامی تشخص کو سیکولرازم نے کیوں داغدار کیاتھااور کس نے غداران ملت کو یہ حق دیا تھاکہ پوری امت مسلمہ کو خلافت اسلامیہ کی ٹھنڈی چھاؤں سے محروم کر کے سیکولریورپی طرزجمہوریت اور خاندانی بادشاہت جیسی ظالمانہ و سفّاکانہ بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں کس لیں؟
ترکی میں جسٹس پارٹی کواپنے عوامی رابطوں کے باعث اﷲتعالی نے اقتداربخشا،نجم الدین اربکان مرحوم اور پھر ان کے بعد طیب ارزگان نے اپنی پارٹی کی حکومت کے دوران عوام کے دل جیت لیے،ترکی کے شہری علاقے جو سیکولرحکمرانوں کے زمانے میں گندگی کے ڈھیروں سے اٹے رہتے تھے اب پورے کے پورے شہرآئینے کی طرح صاف شفاف شیشے کا نقشہ پیش کرتے ہیں،کہ طہارت و نظافت اسلام کے اولین اسباق میں سے ایک ہے۔سیکولرحکمرانوں کے دورمیں معاشی طور پر ترکی جو یورپ کا مرد بیکار تھااور ترکی کی کرنسی جواپنے زوال کی انتہاؤں کو چھورہی تھی اسلام پسندوں کی حکومت کے دوران بہترین معاشی پالیسیوں کے باعث اب ترکی کاشمار یورپ کی صف اول کی ریاستوں میں شمارہوتاہے اور معاشی ترقی کے باعث یورپی یونین سے اقتصادی تعلقات میں بھی برف پگھنے لگی ہے۔سیکولرحکمرانوں نے ترکی کی خارجہ پالیسی میں اپنے ملک کو دنیاکی بدنام زمانہ ترین فسطائی ریاست ’’اسرائیل‘‘ جیسے ملک کے نیچے لگارکھاتھاجبکہ اسلام پسند حکمرانوں نے ترکی کے نیٹورکن ہونے کے باوجود خارجہ امور میں ایک متوازن پالیسی اختیارکر کے تو عالمی برادری میں باعزت مقام عطا کیاہے،برما کے مسلمانوں کے ساتھ ترکی کی قیادت نے دنیابھر میں نہ صرف آواز بلندکی بلکہ وہاں کے دورے بھی کیے اوربے یارومددگاربرمی مسلمانوں کے رستے زخموں پر مرہم رکھا۔سیکولرحکمرانوں نے اپنی پناہ گاہ کے طور پر فوجی بندوقوں کی چھاؤں میں اپنی حکومت کاعرصہ گزاراجبکہ اسلام پسندوں نے ملک کے اعلیٰ ترین تعلیمی وانتظامی ادروں سے فوجی جرنیلوں کا بستر گول کردیاہے اور قوت کے بل بوتے پر قوم کی بلیک میلنگ اب کلیتاً ختم ہو چکی ہے۔ان سب کے علاوہ امن و امان،تعلیمی بڑھوتری،معاشی خوشحالی ،انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے تحفظ سمیت شخصی اقتدارکی بجائے قومی و جمہوری اداروں کی تقویت ،ترکی کے اسلام پسند حکمرانوں کاطرّہ امتیازہے۔
ترکی میںراسخ العقیدہ مسلمان حکمرانوں کی یہ کامیابیاں سیکولرحکمرانوں کے پون صدی سے زائد کے دوراقتدارپر کھلے تمانچے ہیںجنہیں اب وہاں کے شکست خوردہ سیکولرعناصر برداشت نہیں کر پا رہے کیونکہ اس طرح کی تاریخ ساز کامیابیوںکے باعث نہ صرف ترکی میں بلکہ دیگر اسلامی ممالک میں سیکولرازم کے راستے ہمیشہ کے لیے مسدودہو جائیں گے اور باقی غیراسلامی دنیاؤں کے سامنے بھی اسلامی نظام حیات کے ثمرات اور سیکولرازم کی منحوسیات میں فرق واضع ہونے لگے گاکہ ایک خدا کے پجاری اور پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہشات کے پچاریوں کے طریق اقتدار میں کس حد تک بعد الشرقین ہے۔گزشتہ ماہ کے آخر سے ترکی کے سیکولرعناصر انقرہ میں ایک باغیچہ ،غازی پارک،کی تعمیر نو کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں انہیں یہ اعتراض ہے کہ اس طرح سے شہر کی ہریالی ختم ہو جائے گی،سیروسیاحت کے مقامات ناپید ہو جائیں گے اور فضامیں آلودگی بڑھ جائے گی وغیرہ وغیرہ۔لیکن یہ اعتراضات سیکولرازم کی روایتی منافقت اور دورخے پن کے سوا کچھ نہیں،حقیقت یہ ہے کہ ترکی کی حکومت کے راسخ العقیدہ مسلمان حکمران اس باغیچہ کے قریب ٹریفک کے رش اور پیدل چلنے والوں کی دشواری کے باعث اس کے نقشہ میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں جس میں دیگر تعمیرات کے ساتھ ساتھ ایک مسجد کی تعمیر بھی شامل ہے جس پر سیکولرعناصرجن کے آقاؤں نے ’’مذہبی آزادی‘‘کے نام پر صرف عیسائیت ہی کی آزادی کاسبق انہیں یادکرایاہے ان کے لیے ایک مسجد کی تعمیر بھلا کیسے برداشت ہو سکتی ہے؟ اس باغیچہ کے پاس 1909میںعثمانی خلیفہ کی تعمیر کردہ فوجی بیرکیں بھی تھیں،جہاں رہنے والے فوجیوں نے باغیان خلافت اسلامیہ کے خلاف تادیبی کاروائیاں کی تھیں،ان بیرکوں کو سیکولرحکومتوں نے 1940میں منہدم کر ڈالااور ان کی جگہ’’اتاترک کلچرل سنٹر‘‘تعمیرکردیا جس میں وہ سب کچھ ہوتاہے جو سیکولردنیاؤں میں کیاجاتاہے،طیب ارزگان کی حکومت نے فیصلہ کیاہے اس نام نہاد‘‘کلچرل سنٹر‘‘جس میں ہونی والی بدتہذیبیوں کی اسلامی ثقافت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ،کو منہدم کر کے تو خلافت عثمانیہ کی وہی بیرکیں دوبارہ تعمیر کی جائیں۔ان سیکولرعناصر
ترکی میںسیکولرازم کی آخری ہچکیاں!!!
…ڈاکٹر ساجدخاکوانی…
امت مسلمہ سے خلافت عثمانیہ کے مصنوعی وسازشی خاتمے کے بعد سے ترکی مسلمانوں کی گردنوں پر سیکولرقیادت نے اپنے استبدادی پنجے گاڑے رکھے اور کم و بیش پون صدی تک وہاں کے جرنیلوں نے اپنی بندوقوں سے سیکولرازم کے تعیناتی حکمرانوں کو جمہوریت کے لبادے کاتحفظ فراہم کیے رکھا۔جب ایک طویل عرصے کے بعد سیکولرازم کے بدبودار نظریات سے مسلمان ترک قوم کی حِدبرداشت جواب دے گئی اور صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اب گزشتہ تین انتخابات سے مسلسل راسخ العقیدہ طیب ارزگان کی جسٹس پارٹی کوپورے ملک سے جتنابڑااعتمادحاصل ہواہے اسے سیکولرازم کی تابوت میں آخری کیل قرار دینا عبث نہ ہوگا۔ ’’بجھنے سے پہلے چراغ پوری قوت سے بھڑکتاہے‘‘ کے مصداق آج کل ترکی کے بچے کچے اور شکست خوردہ سیکولرافراداندرونی و بیرونی سازشی عناصر کی آشیرباد سے اپنے کفن سے منہ نکالے ہوئے ہیںاور اسلام پسند حکمرانوں کے خلاف اپنے ہی قائم کردہ جمہوری اصولوں کو سبوتاژکیے چلے جارہے ہیں۔ان سیکولرافراد کو بہت ساری شکایتوں میں سے ایک بڑی شکایت یہ بھی ہے کہ موجودہ راسخ العقیدہ مسلمان حکمرانوں نے ترکی کے سیکولر تشخص کو مجروح کیاہے جبکہ وہ پہلے اس بات کا تو جواب دیں کہ ترکی کے اسلامی تشخص کو سیکولرازم نے کیوں داغدار کیاتھااور کس نے غداران ملت کو یہ حق دیا تھاکہ پوری امت مسلمہ کو خلافت اسلامیہ کی ٹھنڈی چھاؤں سے محروم کر کے سیکولریورپی طرزجمہوریت اور خاندانی بادشاہت جیسی ظالمانہ و سفّاکانہ بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں کس لیں؟
ترکی میں جسٹس پارٹی کواپنے عوامی رابطوں کے باعث اﷲتعالی نے اقتداربخشا،نجم الدین اربکان مرحوم اور پھر ان کے بعد طیب ارزگان نے اپنی پارٹی کی حکومت کے دوران عوام کے دل جیت لیے،ترکی کے شہری علاقے جو سیکولرحکمرانوں کے زمانے میں گندگی کے ڈھیروں سے اٹے رہتے تھے اب پورے کے پورے شہرآئینے کی طرح صاف شفاف شیشے کا نقشہ پیش کرتے ہیں،کہ طہارت و نظافت اسلام کے اولین اسباق میں سے ایک ہے۔سیکولرحکمرانوں کے دورمیں معاشی طور پر ترکی جو یورپ کا مرد بیکار تھااور ترکی کی کرنسی جواپنے زوال کی انتہاؤں کو چھورہی تھی اسلام پسندوں کی حکومت کے دوران بہترین معاشی پالیسیوں کے باعث اب ترکی کاشمار یورپ کی صف اول کی ریاستوں میں شمارہوتاہے اور معاشی ترقی کے باعث یورپی یونین سے اقتصادی تعلقات میں بھی برف پگھنے لگی ہے۔سیکولرحکمرانوں نے ترکی کی خارجہ پالیسی میں اپنے ملک کو دنیاکی بدنام زمانہ ترین فسطائی ریاست ’’اسرائیل‘‘ جیسے ملک کے نیچے لگارکھاتھاجبکہ اسلام پسند حکمرانوں نے ترکی کے نیٹورکن ہونے کے باوجود خارجہ امور میں ایک متوازن پالیسی اختیارکر کے تو عالمی برادری میں باعزت مقام عطا کیاہے،برما کے مسلمانوں کے ساتھ ترکی کی قیادت نے دنیابھر میں نہ صرف آواز بلندکی بلکہ وہاں کے دورے بھی کیے اوربے یارومددگاربرمی مسلمانوں کے رستے زخموں پر مرہم رکھا۔سیکولرحکمرانوں نے اپنی پناہ گاہ کے طور پر فوجی بندوقوں کی چھاؤں میں اپنی حکومت کاعرصہ گزاراجبکہ اسلام پسندوں نے ملک کے اعلیٰ ترین تعلیمی وانتظامی ادروں سے فوجی جرنیلوں کا بستر گول کردیاہے اور قوت کے بل بوتے پر قوم کی بلیک میلنگ اب کلیتاً ختم ہو چکی ہے۔ان سب کے علاوہ امن و امان،تعلیمی بڑھوتری،معاشی خوشحالی ،انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے تحفظ سمیت شخصی اقتدارکی بجائے قومی و جمہوری اداروں کی تقویت ،ترکی کے اسلام پسند حکمرانوں کاطرّہ امتیازہے۔
ترکی میںراسخ العقیدہ مسلمان حکمرانوں کی یہ کامیابیاں سیکولرحکمرانوں کے پون صدی سے زائد کے دوراقتدارپر کھلے تمانچے ہیںجنہیں اب وہاں کے شکست خوردہ سیکولرعناصر برداشت نہیں کر پا رہے کیونکہ اس طرح کی تاریخ ساز کامیابیوںکے باعث نہ صرف ترکی میں بلکہ دیگر اسلامی ممالک میں سیکولرازم کے راستے ہمیشہ کے لیے مسدودہو جائیں گے اور باقی غیراسلامی دنیاؤں کے سامنے بھی اسلامی نظام حیات کے ثمرات اور سیکولرازم کی منحوسیات میں فرق واضع ہونے لگے گاکہ ایک خدا کے پجاری اور پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہشات کے پچاریوں کے طریق اقتدار میں کس حد تک بعد الشرقین ہے۔گزشتہ ماہ کے آخر سے ترکی کے سیکولرعناصر انقرہ میں ایک باغیچہ ،غازی پارک،کی تعمیر نو کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں انہیں یہ اعتراض ہے کہ اس طرح سے شہر کی ہریالی ختم ہو جائے گی،سیروسیاحت کے مقامات ناپید ہو جائیں گے اور فضامیں آلودگی بڑھ جائے گی وغیرہ وغیرہ۔لیکن یہ اعتراضات سیکولرازم کی روایتی منافقت اور دورخے پن کے سوا کچھ نہیں،حقیقت یہ ہے کہ ترکی کی حکومت کے راسخ العقیدہ مسلمان حکمران اس باغیچہ کے قریب ٹریفک کے رش اور پیدل چلنے والوں کی دشواری کے باعث اس کے نقشہ میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں جس میں دیگر تعمیرات کے ساتھ ساتھ ایک مسجد کی تعمیر بھی شامل ہے جس پر سیکولرعناصرجن کے آقاؤں نے ’’مذہبی آزادی‘‘کے نام پر صرف عیسائیت ہی کی آزادی کاسبق انہیں یادکرایاہے ان کے لیے ایک مسجد کی تعمیر بھلا کیسے برداشت ہو سکتی ہے؟ اس باغیچہ کے پاس 1909میںعثمانی خلیفہ کی تعمیر کردہ فوجی بیرکیں بھی تھیں،جہاں رہنے والے فوجیوں نے باغیان خلافت اسلامیہ کے خلاف تادیبی کاروائیاں کی تھیں،ان بیرکوں کو سیکولرحکومتوں نے 1940میں منہدم کر ڈالااور ان کی جگہ’’اتاترک کلچرل سنٹر‘‘تعمیرکردیا جس میں وہ سب کچھ ہوتاہے جو سیکولردنیاؤں میں کیاجاتاہے،طیب ارزگان کی حکومت نے فیصلہ کیاہے اس نام نہاد‘‘کلچرل سنٹر‘‘جس میں ہونی والی بدتہذیبیوں کی اسلامی ثقافت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ،کو منہدم کر کے تو خلافت عثمانیہ کی وہی بیرکیں دوبارہ تعمیر کی جائیں۔ان سیکولرعناصر کو خوف ہے کہ فوجی بیرکوں کی تعمیر ان کے خلاف ایک علامتی دھمکی ہے جو ایک صدی قبل انہیں کے قبیل کے لوگوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی یادکراتی ہے۔
ترکی کے سیکولرعناصر کایہ احتجاج دراصل اونٹ کے بوجھ پر آخری تنکا ثابت ہواہے،کیونکہ پورے ملک میں ایک باغیچہ کی تعمیر نو کوئی اتنا بڑا معانی نہیں رکھتاکہ اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آیا جائے اور اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اس حد تک اپنے ہی ملک کی جمہوری حکومت کے خلاف احتجاج کیاجائے ۔حقیقت یہ ہے کہ ترکی بیدار مغزراسخ العقیدہ مسلمان قیادت نے گزشتہ دس سال کے مختصر ترین عرصہ میں سیکولرآئین کے باوجود اس میں سے اسلامی شریعت کے نفاذ کی جو راہیں نکالی ہیں ،یہ سکولرعناصر ان اقدامات سے بری طرح خائف ہیں۔کچھ ہی عرصہ پہلے حکومت نے پارلیمان میں قانون منظور کیاہے جس کے بعد رات کے اوقات میں دکانوں پر شراب کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے،یہ واضع اشارہ ہے کہ آنے والے دنوں میں شراب پر مکمل پابندی لگ جائے گی،حکومت نے برسراقتدارآتے ہی خواتین کے اسکارف پر لگائی گئی پابندی ختم کر دی اور سیکولر حکمرانوں کے دور میں جہاں پولیس کو حکم تھاکہ سڑکوں پر چلتی ہوئی باپردہ خواتین کے اسکارف نوچ لیے جائیں وہاں اب وزیراعظم کی زوجہ، ملک کی خاتون اول اسلامی اسکارف میں نظر آتی ہیں، موجودہ حکومت نے روزاول سے عوامی مقامات پر سرعام بوس و کنار اور دوائی زنا وعمل زنا پر پابندی عائد کررکھی ہے،ان کے علاوہ سیکولرازم کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ترکی کے جرنیل ،انہیں بھی اس حکومت نے نہ صرف یہ کہ بڑی صفائی کے ساتھ کنارے لگا کر غیر موثر کردیا ہے بلکہ ان کی بدعنوانیوں کے باعث ان کے خلاف مقدمات بناکر انہیں پس دیوارزنداں دھکیل دیاہے اورملک کے نونہالوں کے لیے نظام تعلیم میں اصلاحات کے ذریعے ایک مسلمان نسل کی تعمیر کی جارہی ہے۔یہ اقدامات بھلا ملکی سیکولرعناصراور ان کے غیرملکی آقاؤں کو بھلا کہاں برداشت ہوسکتے ہیں،پس بہانہ ’’غازی پارک‘‘اور’’تقسیم اسکوائر‘‘کا ہے اور پس پردہ یہ ساراغصہ اسلامی اقدار کے فروغ کے خلاف نکالاجا رہا ہے، دنیا پر اب یہ حقیقت طشت ازبام ہو چکی ہے کہ آج کا یورپی و یہودی میڈیا قوم شعیب سے تعلق رکھتاہے،ان کے لینے کے پیمانوں اور دینے کے پیمانوں میں زمین و آسمان کافرق ہے ۔سیکولرازم کے کارپردازوں کا یہ رویہ خود سیکولرازم کے ڈوبنے کا باعث بنے گااوراب یہ نوشتہ دیوار ہے کہ کیمونزم کے ساتھ والی قبر میں سیکولرازم دفن ہو نے والا ہے اور اس دنیائے انسانیت کا مستقبل اول و آخر ختم نبوتﷺ سے ہی وابسطہ ہے اور وابسطہ رہے گا،ان شاء اﷲتعالی۔
کو خوف ہے کہ فوجی بیرکوں کی تعمیر ان کے خلاف ایک علامتی دھمکی ہے جو ایک صدی قبل انہیں کے قبیل کے لوگوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی یادکراتی ہے۔
ترکی کے سیکولرعناصر کایہ احتجاج دراصل اونٹ کے بوجھ پر آخری تنکا ثابت ہواہے،کیونکہ پورے ملک میں ایک باغیچہ کی تعمیر نو کوئی اتنا بڑا معانی نہیں رکھتاکہ اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آیا جائے اور اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اس حد تک اپنے ہی ملک کی جمہوری حکومت کے خلاف احتجاج کیاجائے ۔حقیقت یہ ہے کہ ترکی بیدار مغزراسخ العقیدہ مسلمان قیادت نے گزشتہ دس سال کے مختصر ترین عرصہ میں سیکولرآئین کے باوجود اس میں سے اسلامی شریعت کے نفاذ کی جو راہیں نکالی ہیں ،یہ سکولرعناصر ان اقدامات سے بری طرح خائف ہیں۔کچھ ہی عرصہ پہلے حکومت نے پارلیمان میں قانون منظور کیاہے جس کے بعد رات کے اوقات میں دکانوں پر شراب کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے،یہ واضع اشارہ ہے کہ آنے والے دنوں میں شراب پر مکمل پابندی لگ جائے گی،حکومت نے برسراقتدارآتے ہی خواتین کے اسکارف پر لگائی گئی پابندی ختم کر دی اور سیکولر حکمرانوں کے دور میں جہاں پولیس کو حکم تھاکہ سڑکوں پر چلتی ہوئی باپردہ خواتین کے اسکارف نوچ لیے جائیں وہاں اب وزیراعظم کی زوجہ، ملک کی خاتون اول اسلامی اسکارف میں نظر آتی ہیں، موجودہ حکومت نے روزاول سے عوامی مقامات پر سرعام بوس و کنار اور دوائی زنا وعمل زنا پر پابندی عائد کررکھی ہے،ان کے علاوہ سیکولرازم کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ترکی کے جرنیل ،انہیں بھی اس حکومت نے نہ صرف یہ کہ بڑی صفائی کے ساتھ کنارے لگا کر غیر موثر کردیا ہے بلکہ ان کی بدعنوانیوں کے باعث ان کے خلاف مقدمات بناکر انہیں پس دیوارزنداں دھکیل دیاہے اورملک کے نونہالوں کے لیے نظام تعلیم میں اصلاحات کے ذریعے ایک مسلمان نسل کی تعمیر کی جارہی ہے۔یہ اقدامات بھلا ملکی سیکولرعناصراور ان کے غیرملکی آقاؤں کو بھلا کہاں برداشت ہوسکتے ہیں،پس بہانہ ’’غازی پارک‘‘اور’’تقسیم اسکوائر‘‘کا ہے اور پس پردہ یہ ساراغصہ اسلامی اقدار کے فروغ کے خلاف نکالاجا رہا ہے، دنیا پر اب یہ حقیقت طشت ازبام ہو چکی ہے کہ آج کا یورپی و یہودی میڈیا قوم شعیب سے تعلق رکھتاہے،ان کے لینے کے پیمانوں اور دینے کے پیمانوں میں زمین و آسمان کافرق ہے ۔سیکولرازم کے کارپردازوں کا یہ رویہ خود سیکولرازم کے ڈوبنے کا باعث بنے گااوراب یہ نوشتہ دیوار ہے کہ کیمونزم کے ساتھ والی قبر میں سیکولرازم دفن ہو نے والا ہے اور اس دنیائے انسانیت کا مستقبل اول و آخر ختم نبوتﷺ سے ہی وابسطہ ہے اور وابسطہ رہے گا،ان شاء اﷲتعالی۔